Showing posts with label Urdu Article. Show all posts
Showing posts with label Urdu Article. Show all posts

حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ اور آج کے حکمران




حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ اور آج کے حکمران

1۔ولادت:

حضرت عمر ؒ بن عبدالعزیز سن 61  ہجری کو مدینہ منوّرہ میں پیدا ہوئے۔آپ ؒ کی والدہ امِّ عاصم حضرت عمر فاروق ؓ کی پوتی تھیں۔ اور والد عبدالعزیز مصر کے گورنر تھے جو مشہور اُموی خلیفہ مروان بن حکم کے بیٹے تھے۔

2۔پرورش:

شاہی خاندان کے عظیم فرد ہونے  کی وجہ سے حضرت عمر ؒ بن عبدالعزیز کی پرورش بڑے ناز و نعم میں ہوئی۔آپؒ کو شاہانہ ماحول میسّر تھا۔ابتدائی تعلیم کے لئےخاص اہتمام کیا گیا۔اس مقصد کے لئے مدینہ منوّرہ کے معروف عالم صالح بن کیسان کی خدمات حاصل کی گئیں۔بچپن ہی سے آپؒ کی دینی اور دنیوی تعلیم کی طرف خصوصی توجہ دی گئی۔کم سنی میں  آپؒ نے قرآن پاک حفظ کر لیا۔بالغ ہوئے تو والد کے پاس مصر چلے گئے۔لیکن زیادہ عرصہ ان کی صحبت سے فیضیاب نہ ہو سکے۔والد کی وفات کے بعد چچا عبدالملک کی خواہش پر ان کے پاس دمشق چلے گئے۔عبدالملک نے اپنی بیٹی فاطمہ کی شادی آپؒ سے کردی۔

3۔حکمرانی:

حضرت عمر ؒ بن عبدالعزیز  چونکہ شاہی خاندان کے فرد تھے۔اس لئے ہوش سنبھالتے ہی متعدد عہدوں پر فائز رہے۔آپؒ جس جگہ بھی گئے وہاں اپنے حسن عمل کے پاکیزہ نمونے چھوڑے۔اور عوام کے دلوں میں گھر کرلیا۔ولید بن عبدالملک نے آپؒ کو مدینے کی گورنری پیش کی تو یہ پیش کش اس شرط پر قبول کی کہ عہدہ داروں کو عوام پر ظلم نہیں کرنے دیا جائے گا۔

حضرت عمر ؒ بن عبدالعزیز نے مدینے کا گورنر بنتے ہی سب سے پہلے مجلس شوریٰ قائم کی۔آپؒ کوئی کام اس کے مشورے کے بغیر نہیں کرتے تھے۔ حکومتی کاموں میں عوام کی رائے کو معتبر سمجھتے تھے۔آپؒ نے سن 87 ہجری سے سن 93 ہجری تک مدینے اور طائف پر حکومت کی۔اس دوران میں آپؒ نے عدل و انصاف سے اس قدر کام لیا  کہ اہل حجاز آپؒ کے گرویدہ ہوگئے۔آپؒ نے بے شمار اصلاحات نافذ کیں۔اور رفاہِ عامہ کے ان گنت کام کئے۔آپؒ خلیفہ سلیمان کے دور حکومت میں اس کے مشیر خاص رہے۔اور حکومتی امور کی اصلاح کے لئےکئی مفید مشورے دئے۔

4۔خلافت کے لئے نامزدگی اور اہلیت:

سلیمان نے اپنی زندگی میں ولی عہد کا نام ظاہر کئے بغیر بنو امیہ سے سر بمہر لفافے پر بیعت لے لی تھی۔سلیمان نے وفات پائی تو  رجابن بن حیواۃ نے بنو امیہ کو اکٹھا کیا۔سر بمہر لفافہ کو کھولا اور پڑھا تو حضرت عمر ؒ بن عبدالعزیز کا نام لکھا ہوا تھا۔

حضرت عمر ؒ بن عبدالعزیز ایک نیک دل انسان تھے۔آپؒ نے اگلے دن عوام کو جمع کیا اور کہا !"لوگو!مجھے میری خواہش اور عوام کی رائے کے بغیر  خلیفہ نامزد کیا گیا ہے۔میری گردن میں ذمہ داریوں کا جو طوق ڈالا گیا  ہے ، میں خود کو اس کا اہل نہیں سمجھتا تم جسے چاہو اپنا خلیفہ منتخب کر سکتے ہو"۔لوگوں نے بلند آواز سے کہا ،"ہم نے آپ کو اپنا خلیفہ منتخب کر لیا ہے، ہم نے آپ کو اپنا خلیفہ منتخب کر لیا ہے"۔

5۔طرز حکمرانی:

حضرت عمر ؒ بن عبدالعزیز در اصل خلاففت راشدہ کا احیاء چاہتے تھے۔آپؒ نے خلافت کا بار سنبھالتے ہی طرز زندگی کو یکسر تبدیل کر دیا۔دستور کے مطابق آپؒ کے سامنے شاہی سواری پیش کی گئی تو آپؒ نے اسے واپس کردیا اور کہا کہ میرے لئے میرا خچر ہی کافی ہے۔

6۔احساس حقوق الناس:

حضرت عمر ؒ بن عبدالعزیز خلافت کی ذمہ داریاں سنبھال کرگھر آئے تو سخت پریشان تھے۔لونڈی نے کہا"آج تو خوشی کا دن ہے یہ پریشانی کیسی؟" آپؒ نے فرمایا" پریشانی کیوں نہ ہو، آج مشرق و مغرب میں امت محمدیہ کا کوئی فرد ایسا نہیں جو مجھ سے اپنا حق طلب نہ کر رہا ہو،چاہے اس کے لئے مجھے لکھا  ہے یا نہیں لکھا ہے اور چاہے مجھ سےحق طلب کیا ہے یا نہیں کیا ہے"۔اس کے بعد لونڈی سے فرمایا" آج سے تم آزاد ہو ،جہاں چاہو جا سکتی ہو۔"اپنی بیوی فاطمہ سے کہا " اگر میرے ساتھ رہنا ہے تو خوشحالی نصیب نہ ہوگی،چاہو تو میکے جا سکتی ہو۔" وفا شعار بیوی نے جواب دیا۔"خوشحالی میں ساتھ دیا ہے تو تنگ دستی میں بھی ساتھ دوں گی۔"

7۔حکومتی اخراجات:

آپ سے شاہی اصطبل کے لئے خرچہ مانگا گیا تو آپؒ نے فرمایا" تم گھوڑے بیچ دو اور ان کی قیمت شاہی خزانے میں جمع کرادو۔"محل کا دیگر قیمتی سامان اور قالین وغیرہ بھی فروخت کرنے کا حکم دے دیا۔

8۔خلیفہ بننے کے بعد :

خلیفہ بننے کے بعد حضرت عمر ؒ بن عبدالعزیز کی زندگی نہایت سادہ ہوگئی۔آخری وقت میں کپڑوں کا صرف ایک جوڑارہ گیا تھا۔اسی کو دھو دھو کر پہنا کرتے تھے۔مرض الموت کے وقت مسلمہ بن عبدالملک نے آپؒ کی بیوی فاطمہ سے کہا"قمیص میلی ہو چکی ہے،لوگ عیادت کو آتے ہیں، بدل دو۔" وہ خاموش رہیں۔جب دوبارہ کہا تو فرمایا،"خدا کی قسم اس کے علاوہ کوئی اور قمیص ہے ہی نہیں۔"آپؒ کا گھریلو ماحول بھی بہت سادہ تھا۔گھر کے کام کاج کےلئے کوئی نوکرانی نہ تھی۔تمام کام آپؒ کی بیوی خود کرتی تھیں۔حضرت عمر ؒ بن عبدالعزیز کی بڑی خواہش تھی کہ ان کی کوشش سے ایک بار پھر خلافت راشدہ کی یاد تازہ ہو جائے۔آپؒ کی سادگی اور پاکیزہ کردار کی بدولت امام شافعیؒ نے آپؒ کو پانچواں خلیفہ راشد ہ کہا ہے۔

                                                                                                                     موازنہ

حضرت عمرؒ  بن عبدالعزیز کے بارے میں ہم نےتھوڑی سی معلومات حاصل کیں۔ لیکن آپ ؒ ایک عظیم شخصیت تھے اور عظیم شخصیتوں کے بارے میں جاننے کے لئے ایک دو صفحات کافی نہیں ہوتے۔کتابیں بھر جائیں گی اگر ہم حضرت عمر ؒ بن عبدلاعزیز جیسی شحصیت کے بارے میں لکھنا شروع کردیں۔ لیکن ہم یہاں ان حکمرانوں اور آج کے حکمرانوں میں تھوڑا ساموازنہ پیش کرنا چاہتے ہیں۔آج کے دور میں اگر ہمارا کوئی حاکم یا سربراہ یہ دعوہ کرے کہ مدینہ طرز کی حکمرانی قائم کرنا چاہتا ہوں۔تو اندازہ  لگائیں حضرت عمر ؒ بن عبدالعزیز تو ہجرت کے 61 سال بعد پیدا ہوئے تھے۔ آپؒ کی حکمرانی اس سے بھی بعد کی بات  ہے۔جب 61 سال پہلے ریاست مدینہ قائم ہوئی تھی۔تو اس وقت وہاں کیسی حکمرانی رہی ہوگی۔اُ س وقت کے   حکمرانوں کی پرورش، حکمرانی، طرز حکمرانی، احساس حقوق الناس، حکومتی اخراجات اور خلیفہ بننے کے بعد حالات دیکھیں۔ایک حکمران جو فی الحقیقت شاہی خاندان کا فرد تھا اور ساری عمر اور پرورش شاہی خاندان میں رہی تھی۔جب خود خلیفہ بنا تو مرض الموت کے وقت اس کے پاس  صرف ایک جوڑا کپڑے تھے جو پہنے ہوئے  تھے۔ اور جب کپڑے میلے ہوئے تو پہننے کے لئے اس کے  پاس اتنا کچھ نہیں تھا جس کو استعمال کرکے پہنے ہوئے کپڑے دھونے کے لئے اتارتا۔ ایک اور عظیم شخصیت بھی مدینہ ہی کی ہمیں معلوم ہے۔وہ عظیم شخصیت حضرت عمر فارقؓ  تھے۔مدینے کی گلیوں میں گھومنے والی شخصیت اور غریبوں اور کمزوروں کے لئے اپنے کندھوں پر راشن اٹھا کر لے جانے والی شخصیت کو ہر مسلمان جانتا ہے۔آپؓ امیر المومینین تھے۔لیکن رعایا کے خیر خواہ کس قدر تھے۔سلطنت دیکھیں کتنی پھیلی ہوئی تھی۔لیکن مسجد میں سوتے تھے اور ایک اینٹ لے کر سرہانے کے طور پر استعمال کرتے تھے۔یہ ایک ایسے وزیر اعظم کی بات کررہا ہوں جس کی سلطنت آج کے روس سے زیادہ علاقے پر پھیلی ہوئی تھی۔اور ٹاٹ باٹ دیکھیں ، اینٹ کا سرہانا اورمسجد میں آرام کرنے کی جگہ۔ہمارے آج کے حکمرانوں اور وزیر اعظموں کا ٹاٹ باٹ دیکھیں۔آنکھیں کھلی رہ جاتی ہیں انسان کی۔حضرت عمر ؒ بن عبدالعزیز کی عظمت کو دیکھیں۔ جب خلیفہ بنے تو بے حد پریشان تھے ۔لونڈی نے آپ ؒ سے پریشانی کی وجہ پوچھی تو فرمانے لگے کیوں نہ پریشان ہوں ۔مشرق و مغرب میں سب  امت محمدیہ مجھ سے اپنا حق مانگ رہے ہیں۔میں تو بڑے امتحان میں پھنس گیا ہوں۔لونڈی سے کہا تم تو آزاد ہوجاؤ۔ایک کام تو کم از کم کرلوں۔  بیوی سے کہا کوئی لونڈی ، غلام یا نوکر نہیں ملے گا۔سب کام اپنے ہاتھ سے کرو گی ورنہ اپنے ماں باپ کے گھر جاؤ۔سرکاری خزانے سے کوئی سہولت نہیں دوں گا۔ لیکن وہ ایک غیرت مند خاتون تھی۔اس نے کہا جب خوشی اور راحت تھی تو تمھارے پاس تھی اب بھی تمھارے پاس رہوں گی۔چاہے خوشی نہ بھی ہو۔ ہمارے آج کے سیاست دان خلیفہ بننے کے لئے جو جھوٹ بولتے ہیں اور جتنا فراڈ کرتے ہیں۔اللہ ہمیں ان سے امان میں رکھے۔خلیفہ بننے کے بعد ٹیکسوں کی بھر مارکے ساتھ ساتھ مہنگائی کے بے تاج بادشاہ بن جاتے ہیں۔اور سوچتے نہیں کہ اس کا بوجھ غریب لوگ کیسے اٹھائیں گے۔  امیروں  پر ٹیکسوں اور مہنگائی کا کیا اثر ہوتا ہے۔اگر پٹرول مہنگا ہوتا ہے تو امیر کو اس سے کیا غرض ہے۔اس سے بس کا کرایہ بڑھے گا جس میں غریب نے سفر کرنا ہوتا ہے۔اگر آٹا،دال گھی کی قیمتیں بڑھ جاتی ہیں تو امیر کو کچھ نہیں ہوتا بھوکا تو غریب نے ہونا ہوتا  ہے جسے نہ روزگار ملتا ہے اور نہ اسے کوئی بھیک دیتاہے۔پہلے جب کبھی کسی دفتر میں آسامی خالی ہوتی تھی تو سیاست دان اس پر قبضہ کرکے اپنے لوگوں کو بھرتی کرلیتے تھے۔غریب پھر بھی خالی ہاتھ رہتا تھا۔لیکن ا ب تو نقشہ ہی بدل گیا۔اس خالی آسامی پر  لڑکیوں کو بھرتی کیا جاتا ہے۔جن کو اپنے خاندان کی کوئی فکر ہی نہیں ہوتی۔ اندازہ لگائیں جس شخص نے خاندان کو پالنا ہوتا ہے اسے بے روزگار کرکے اس کے سارے خاندان کو بھکاریوں کا خاندان بنا دیا گیا۔جس نے کسی کونہیں پالنا ہے اسے باروزگار کرکےاس پر احسانات کے انبار لگا دئے۔یہ سب فراڈ  صرف ووٹ کے لئے کیا جا رہا ہے۔کسی طریقے سے ان کے ووٹ حاصل کرکے اپنا ووٹ بینک بڑھا نا ہے۔تاکہ اگلی دفعہ کامیاب ہو کے پھر خلیفہ بن جائیں۔اور جب خلیفہ بن جائیں تو مہنگائی کا جن آزاد چھوڑ کر ان غریب اور  کچھلے ہوئے لوگوں کا مکمل جوس نکال دیں۔اور لوگ چیخیں یا نہ چیخیں کم از کم خلیفہ تو چیختا رہے کہ مہنگائی اس لئے ہوگئی کہ پچھلی خراب حکومتوں کا گند صاف کر رہے ہیں۔یا آئی یایم ایف ہمیں مجبور کررہاہے۔اگلی دفعہ کامیاب کرادو تو راحت آجائیگی۔اس دفعہ صرف خزانہ بھرنے کی باری ہے۔حالانکہ جب حضرت عمرؒ بن عبدالعزیز  خلیفہ بنے تو آپؒ نے شاہی اسطبل کے سارے گھوڑے بیچ ڈالے اور فرمایا کہ میرے لئے میرا خچر ہی کافی ہے۔ممکن ہے ہمارے آج کے خلفاء کے کتے، گھوڑے، بھینسیں بکریاٰں بھی ہیلی کاپٹر میں سفر کر رہی ہوں۔

Read in English

Hazrat Umar Bin Abdul Aziz (Rahimahullah)

The Birth of Hazrat Umar Bin Abdul Aziz (RAH)

Hazrat Umar bin Abdul Aziz was born in the year 61 AH in Medina. His mother Umm Asim was the granddaughter of Hazrat Umar Farooq RA. And his father Abdul Aziz was the governor of Egypt; he was the son of the famous Umayyad Caliph Marwan bin Hukam.

Lookd after:

Being a great member of the royal family Hazrat Umar bin Abdul Aziz was brought up with great pride and bliss. A lavish atmosphere was available to him. Special arrangements were made for his primary education. For this purpose, the services of Saleh bin Kaysan, a well-known scholar of Medina, were enlisted. From his childhood, special attention was paid to his religious and secular education. At a young age, he memorized the Holy Qur'an. When he became an adult, he went to Egypt with his father. But their company did not last long. After the death of his father, he went to Damascus at the request of his uncle Abdul Malik. Abdul Malik married his daughter Fatima to him.

Governance:

Hazrat Umar bin Abdul Aziz was a member of the royal family. Therefore, as soon as he regained consciousness, he held various positions. Wherever he went, he left pure examples of his good deeds and made a home in the hearts of the people. When Walid bin Abdul Malik offered him the governorship of Madinah, he accepted the offer on the condition that the officials would not be allowed to oppress the people.

As soon as Hazrat Umar bin Abdul Aziz became the Governor of Madinah, he established the first Majlis-e-Shura. He did not do anything without the advice of Majlis-e-Shura. He considered the opinion of the people to be credible in government affairs. He ruled over Madinah and Taif from 87 AH to 93 AH. During this time he worked so hard with justice that the people of Hijaz became his subjects. He implemented a number of reforms and did countless public welfare work. He was a special adviser during the reign of Caliph Sulayman. He gave many useful suggestions for improving government affairs.

Competency and Nomination for the Caliphate?:

Sulayman took the oath of allegiance from the Umayyads on a sealed envelope without revealing the name of the Crown Prince in his lifetime. When Sulayman died, Rajabin ibn Haywa gathered the Umayyads. When he opened and read the sealed envelope, the name of Hazrat Umar bin Abdul Aziz was written.

Hazrat Umar bin Abdul Aziz was a kind hearted man. He gathered the people the next day and said! "O, People! I have been appointed caliph without my will and public opinion. I don't consider myself worthy of the shackles of responsibility that have been placed around my neck. You can choose whomever you want." People shouted, "We have chosen you as our caliph, we have chosen you as our caliph."

Style of Governess:

Hazrat Umar bin Abdul Aziz actually wanted the revival of the Righteous Caliphate. As soon as he took charge of the Khilafah, he radically changed his lifestyle. According to the constitution, a royal ride was offered to him, but he returned it and said, "My mule is enough for me."

Realization of the People’s Rights:

When Hazrat Umar bin Abdul Aziz came home after taking charge of the Khilafah, he was very upset. The slave girl said, "Today is a happy day. Why are you ups?” He said, "Why should not I worry?" Today, there is no member of the Muhammadan Ummah in the East and the West who is not demanding his right from me, whether I have been written for it or not and whether I have been asked for the right or not.” Then he said to the slave girl, "from today you are free, you can go wherever you want.” He said to his wife Fatima, "If you want to live with me, you will not have prosperity. If you want, you can go to your Parents home." The loyal wife replied, "If I supported in prosperity, I will support you in hardship also."

Expenses:

When he was asked to pay for the royal stables, he said, "Sell the horses and deposit their price in the royal treasury."He also ordered the sale of other valuables and carpets of the palace.

After Resuming the caliph:

After becoming the caliph, the life of Hazrat Umar bin Abdul Aziz became very simple. Only one pair of clothes was left at the last minute. He used to wash and wear it again and again. At the time of death illness, Muslima bin Abdul Malik said to his wife Fatima: His shirt is dirty, people come for hospitality, change it”. She kept quiet. When he repeated, she said,” By God, there is no other shirt for him.” His home environment was also very simple. There was no maid to do the housework. All the work was done by his wife herself. Hazrat Umar bin Abdul Aziz had a great desire to be reminded of the Righteous Caliphate once again. Due to his simplicity and pure character, Imam Shafi'i has called him the fifth Rashida Caliph.

Written by Saiful Islam Khan

For The Distance Learning School