Showing posts with label General. Show all posts
Showing posts with label General. Show all posts

The Importance of the Reading of the Child’s Mind




The Importance of the Reading of the Child’s Mind

 Is it necessary to read the mind of the child for the development of the child? Not only sound physical education but his alertness and dedication too are most required. The newborn baby can do nothing but breathe, urinate or defecate and cry. If he drinks breast milk after birth, move the eyes properly and be shocked at the sound of something falling near him, so that's a welcome thing in terms of his mental capacity. Children grow up over time. For example, at the age of two and a half to four months, a normal baby is able to handle his neck. At the same age, the way he looks also matures. It also guarantees that the baby is growing in the right direction. Similarly, during five to six months, the process of tooth extraction often begins in children. Also, they are able to say Baba, Mama, Tata, etc. from the age of five or six months. Thus, at the age of one and a half years, they start walking with the help of kneeling and support. If the child is still unable to walk, consult a physician. Between the ages of two and two and a half, children are able to get toilet training and at the age of three, they have enough vocabulary to be able to pronounce it in a somewhat appropriate order. In this way, they become aware of a variety of sounds, such as eating, drinking, changing clothes, defecating, bathing, and socializing with other children. Regardless of the good or the bad, if the children have eye problems or squinting, their head size is small or big, Feel the crookedness in the hands or walk on all fours instead of the whole foot so parents should be concerned. Another major problem in children is mental retardation. As a result, they are mentally behind their peers. Such children are no less a test for parents. The training of children with mental retardation is different from that of normal children. Therefore, parents must get information about such children. There is a need for children to be provided with whatever they are interested in so that they can work according to their tendency and make progress in it. Doing so will improve their ability to learn.

 بچے کی نشونما کے لئے بچے کا ذہن پڑھنا !

 بچوں کی نشونما کے لئے صرف جسمانی  صحت دیکھنا ضروری نہیں ہے ان کے ذہن کو بھی پڑھنا ضروری ہے۔نوزائدہ بچہ سانس لینے،پیشاب یا پاخانہ کرنےاور رونے کے علاوہ کچھ نہیں کرسکتا۔اگر وہ پیدائش کے بعد ماں کا دودھ پیئے۔آنکھوں کو مناسب انداز سے حرکت دے اور اپنے قریب کسی چیز کے گرنے کی آواز پر چونک جائے تو یہ اس کی ذہینی صلاحیت کے حوالے سے ایک خوش آئیند بات ہے۔وقت کے ساتھ ساتھ بچے بتدریج نشونما پاتے جاتے ہیں۔مثلاً ڈھائی سے چار ماہ کی عمر میں ایک نارمل بچہ اپنی گردن کو سنبھالنے کے قابل ہوجاتا ہے۔اسی عمر میں اس کے دیکھنے کے انداز میں بھی پختگی آجاتی ہے۔یہ بھی اس کی ضمانت ہے کہ بچے کی نشونما درست سمت میں ہو رہی ہے۔اسی طرح پانچ سے چھ ماہ کے دوران بچوں میں اکثر دانت نکلنے کا عمل شروع ہوجاتا ہے۔نیز وہ پانچ چھ ماہ کی عمر سے بابا،ماما، تاتا وغیرہ ادا کرنے کے قابل ہوجاتے ہیں۔اس طرح وہ ایک سال سے سوا سال کی عمر میں وہ گھٹنوںکے بل اور سہارے کی مدد سے چلنا شروع کر جاتے ہیں۔اگر اس کے بعد بھی بچہ نہ چل سکے تو معالج سے مشورہ کرلینا چاہئے۔دو سے ڈھائی سال کی عمر میں بچے اس قابل ہوجاتے ہیں کہ وہ ٹائلٹ کی تربیت حاصل کرسکیں تین سال کی عمر میں ان کے پا س اتنا ذخیرہ الفاظ ہوجاتا ہے کہ وہ انہیں کسی حد تک مناسب ترتیب  سے ادا کرسکیں۔اس طرح انہیں مختلف قسم کی آوازیں نکالنے ، کھانے پینے ،لباس کی تبدیلی، رفع حاجت ، نہانے دھونے اور دوسرے  بچو ں کے ساتھ میل جول رکھنے جیسے امور کا تھوڑا بہت شعور بھی آجاتا ہے۔خوب صورتی اور بد صورتی سے قطع نظر اگر بچوں میں آنکھوں کی خرابی یا بھینگاپن محسوس ہو، ان کے سر کا سائز چھوٹا  یا بڑا ہو، ہاتھوں میں ٹیڑھاپن محسوس ہو  یا وہ پورے پاؤ ں کی بجائے صرف پنجوں کے بل چلتے ہوں تو والدین کو تشویش ہونی چاہئے۔ اس کے علاوہ بچوں میں ایک اور بہت اہم مسئلہ ذہنی پسماندگی کا بھی ہوتا ہے۔جس کے سبب وہ اپنے ہم عمر بچوں سے ذہنی طور پر پیچھے رہ جاتے ہیں۔ایسے بچے والدین  کے لئے  آزمائش سے کم نہیں ہوتے۔ذہنی پسماندگی کے شکار بچوں کی تربیت عام بچوں سے مختلف ہوتی ہے۔لہٰذہ والدین کو ایسے بچوں کے بارے میں معلومات ضرور حاصل کرنی چاہئیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ بچوں کی دلچسپی جس چیز میں ہو انہیں وہ فراہم کی جائیں۔تاکہ وہ اپنے رحجان کے مطابق کام کریں۔اور اس میں ترقی کریں۔ایسا کرنے سےان کے سیکھنے کی صلاحیت بہتر ہوگی۔

Written by Saiful Islam Khan

for The Distance Learning School


Thanks for the visit     





حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ اور آج کے حکمران




حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ اور آج کے حکمران

1۔ولادت:

حضرت عمر ؒ بن عبدالعزیز سن 61  ہجری کو مدینہ منوّرہ میں پیدا ہوئے۔آپ ؒ کی والدہ امِّ عاصم حضرت عمر فاروق ؓ کی پوتی تھیں۔ اور والد عبدالعزیز مصر کے گورنر تھے جو مشہور اُموی خلیفہ مروان بن حکم کے بیٹے تھے۔

2۔پرورش:

شاہی خاندان کے عظیم فرد ہونے  کی وجہ سے حضرت عمر ؒ بن عبدالعزیز کی پرورش بڑے ناز و نعم میں ہوئی۔آپؒ کو شاہانہ ماحول میسّر تھا۔ابتدائی تعلیم کے لئےخاص اہتمام کیا گیا۔اس مقصد کے لئے مدینہ منوّرہ کے معروف عالم صالح بن کیسان کی خدمات حاصل کی گئیں۔بچپن ہی سے آپؒ کی دینی اور دنیوی تعلیم کی طرف خصوصی توجہ دی گئی۔کم سنی میں  آپؒ نے قرآن پاک حفظ کر لیا۔بالغ ہوئے تو والد کے پاس مصر چلے گئے۔لیکن زیادہ عرصہ ان کی صحبت سے فیضیاب نہ ہو سکے۔والد کی وفات کے بعد چچا عبدالملک کی خواہش پر ان کے پاس دمشق چلے گئے۔عبدالملک نے اپنی بیٹی فاطمہ کی شادی آپؒ سے کردی۔

3۔حکمرانی:

حضرت عمر ؒ بن عبدالعزیز  چونکہ شاہی خاندان کے فرد تھے۔اس لئے ہوش سنبھالتے ہی متعدد عہدوں پر فائز رہے۔آپؒ جس جگہ بھی گئے وہاں اپنے حسن عمل کے پاکیزہ نمونے چھوڑے۔اور عوام کے دلوں میں گھر کرلیا۔ولید بن عبدالملک نے آپؒ کو مدینے کی گورنری پیش کی تو یہ پیش کش اس شرط پر قبول کی کہ عہدہ داروں کو عوام پر ظلم نہیں کرنے دیا جائے گا۔

حضرت عمر ؒ بن عبدالعزیز نے مدینے کا گورنر بنتے ہی سب سے پہلے مجلس شوریٰ قائم کی۔آپؒ کوئی کام اس کے مشورے کے بغیر نہیں کرتے تھے۔ حکومتی کاموں میں عوام کی رائے کو معتبر سمجھتے تھے۔آپؒ نے سن 87 ہجری سے سن 93 ہجری تک مدینے اور طائف پر حکومت کی۔اس دوران میں آپؒ نے عدل و انصاف سے اس قدر کام لیا  کہ اہل حجاز آپؒ کے گرویدہ ہوگئے۔آپؒ نے بے شمار اصلاحات نافذ کیں۔اور رفاہِ عامہ کے ان گنت کام کئے۔آپؒ خلیفہ سلیمان کے دور حکومت میں اس کے مشیر خاص رہے۔اور حکومتی امور کی اصلاح کے لئےکئی مفید مشورے دئے۔

4۔خلافت کے لئے نامزدگی اور اہلیت:

سلیمان نے اپنی زندگی میں ولی عہد کا نام ظاہر کئے بغیر بنو امیہ سے سر بمہر لفافے پر بیعت لے لی تھی۔سلیمان نے وفات پائی تو  رجابن بن حیواۃ نے بنو امیہ کو اکٹھا کیا۔سر بمہر لفافہ کو کھولا اور پڑھا تو حضرت عمر ؒ بن عبدالعزیز کا نام لکھا ہوا تھا۔

حضرت عمر ؒ بن عبدالعزیز ایک نیک دل انسان تھے۔آپؒ نے اگلے دن عوام کو جمع کیا اور کہا !"لوگو!مجھے میری خواہش اور عوام کی رائے کے بغیر  خلیفہ نامزد کیا گیا ہے۔میری گردن میں ذمہ داریوں کا جو طوق ڈالا گیا  ہے ، میں خود کو اس کا اہل نہیں سمجھتا تم جسے چاہو اپنا خلیفہ منتخب کر سکتے ہو"۔لوگوں نے بلند آواز سے کہا ،"ہم نے آپ کو اپنا خلیفہ منتخب کر لیا ہے، ہم نے آپ کو اپنا خلیفہ منتخب کر لیا ہے"۔

5۔طرز حکمرانی:

حضرت عمر ؒ بن عبدالعزیز در اصل خلاففت راشدہ کا احیاء چاہتے تھے۔آپؒ نے خلافت کا بار سنبھالتے ہی طرز زندگی کو یکسر تبدیل کر دیا۔دستور کے مطابق آپؒ کے سامنے شاہی سواری پیش کی گئی تو آپؒ نے اسے واپس کردیا اور کہا کہ میرے لئے میرا خچر ہی کافی ہے۔

6۔احساس حقوق الناس:

حضرت عمر ؒ بن عبدالعزیز خلافت کی ذمہ داریاں سنبھال کرگھر آئے تو سخت پریشان تھے۔لونڈی نے کہا"آج تو خوشی کا دن ہے یہ پریشانی کیسی؟" آپؒ نے فرمایا" پریشانی کیوں نہ ہو، آج مشرق و مغرب میں امت محمدیہ کا کوئی فرد ایسا نہیں جو مجھ سے اپنا حق طلب نہ کر رہا ہو،چاہے اس کے لئے مجھے لکھا  ہے یا نہیں لکھا ہے اور چاہے مجھ سےحق طلب کیا ہے یا نہیں کیا ہے"۔اس کے بعد لونڈی سے فرمایا" آج سے تم آزاد ہو ،جہاں چاہو جا سکتی ہو۔"اپنی بیوی فاطمہ سے کہا " اگر میرے ساتھ رہنا ہے تو خوشحالی نصیب نہ ہوگی،چاہو تو میکے جا سکتی ہو۔" وفا شعار بیوی نے جواب دیا۔"خوشحالی میں ساتھ دیا ہے تو تنگ دستی میں بھی ساتھ دوں گی۔"

7۔حکومتی اخراجات:

آپ سے شاہی اصطبل کے لئے خرچہ مانگا گیا تو آپؒ نے فرمایا" تم گھوڑے بیچ دو اور ان کی قیمت شاہی خزانے میں جمع کرادو۔"محل کا دیگر قیمتی سامان اور قالین وغیرہ بھی فروخت کرنے کا حکم دے دیا۔

8۔خلیفہ بننے کے بعد :

خلیفہ بننے کے بعد حضرت عمر ؒ بن عبدالعزیز کی زندگی نہایت سادہ ہوگئی۔آخری وقت میں کپڑوں کا صرف ایک جوڑارہ گیا تھا۔اسی کو دھو دھو کر پہنا کرتے تھے۔مرض الموت کے وقت مسلمہ بن عبدالملک نے آپؒ کی بیوی فاطمہ سے کہا"قمیص میلی ہو چکی ہے،لوگ عیادت کو آتے ہیں، بدل دو۔" وہ خاموش رہیں۔جب دوبارہ کہا تو فرمایا،"خدا کی قسم اس کے علاوہ کوئی اور قمیص ہے ہی نہیں۔"آپؒ کا گھریلو ماحول بھی بہت سادہ تھا۔گھر کے کام کاج کےلئے کوئی نوکرانی نہ تھی۔تمام کام آپؒ کی بیوی خود کرتی تھیں۔حضرت عمر ؒ بن عبدالعزیز کی بڑی خواہش تھی کہ ان کی کوشش سے ایک بار پھر خلافت راشدہ کی یاد تازہ ہو جائے۔آپؒ کی سادگی اور پاکیزہ کردار کی بدولت امام شافعیؒ نے آپؒ کو پانچواں خلیفہ راشد ہ کہا ہے۔

                                                                                                                     موازنہ

حضرت عمرؒ  بن عبدالعزیز کے بارے میں ہم نےتھوڑی سی معلومات حاصل کیں۔ لیکن آپ ؒ ایک عظیم شخصیت تھے اور عظیم شخصیتوں کے بارے میں جاننے کے لئے ایک دو صفحات کافی نہیں ہوتے۔کتابیں بھر جائیں گی اگر ہم حضرت عمر ؒ بن عبدلاعزیز جیسی شحصیت کے بارے میں لکھنا شروع کردیں۔ لیکن ہم یہاں ان حکمرانوں اور آج کے حکمرانوں میں تھوڑا ساموازنہ پیش کرنا چاہتے ہیں۔آج کے دور میں اگر ہمارا کوئی حاکم یا سربراہ یہ دعوہ کرے کہ مدینہ طرز کی حکمرانی قائم کرنا چاہتا ہوں۔تو اندازہ  لگائیں حضرت عمر ؒ بن عبدالعزیز تو ہجرت کے 61 سال بعد پیدا ہوئے تھے۔ آپؒ کی حکمرانی اس سے بھی بعد کی بات  ہے۔جب 61 سال پہلے ریاست مدینہ قائم ہوئی تھی۔تو اس وقت وہاں کیسی حکمرانی رہی ہوگی۔اُ س وقت کے   حکمرانوں کی پرورش، حکمرانی، طرز حکمرانی، احساس حقوق الناس، حکومتی اخراجات اور خلیفہ بننے کے بعد حالات دیکھیں۔ایک حکمران جو فی الحقیقت شاہی خاندان کا فرد تھا اور ساری عمر اور پرورش شاہی خاندان میں رہی تھی۔جب خود خلیفہ بنا تو مرض الموت کے وقت اس کے پاس  صرف ایک جوڑا کپڑے تھے جو پہنے ہوئے  تھے۔ اور جب کپڑے میلے ہوئے تو پہننے کے لئے اس کے  پاس اتنا کچھ نہیں تھا جس کو استعمال کرکے پہنے ہوئے کپڑے دھونے کے لئے اتارتا۔ ایک اور عظیم شخصیت بھی مدینہ ہی کی ہمیں معلوم ہے۔وہ عظیم شخصیت حضرت عمر فارقؓ  تھے۔مدینے کی گلیوں میں گھومنے والی شخصیت اور غریبوں اور کمزوروں کے لئے اپنے کندھوں پر راشن اٹھا کر لے جانے والی شخصیت کو ہر مسلمان جانتا ہے۔آپؓ امیر المومینین تھے۔لیکن رعایا کے خیر خواہ کس قدر تھے۔سلطنت دیکھیں کتنی پھیلی ہوئی تھی۔لیکن مسجد میں سوتے تھے اور ایک اینٹ لے کر سرہانے کے طور پر استعمال کرتے تھے۔یہ ایک ایسے وزیر اعظم کی بات کررہا ہوں جس کی سلطنت آج کے روس سے زیادہ علاقے پر پھیلی ہوئی تھی۔اور ٹاٹ باٹ دیکھیں ، اینٹ کا سرہانا اورمسجد میں آرام کرنے کی جگہ۔ہمارے آج کے حکمرانوں اور وزیر اعظموں کا ٹاٹ باٹ دیکھیں۔آنکھیں کھلی رہ جاتی ہیں انسان کی۔حضرت عمر ؒ بن عبدالعزیز کی عظمت کو دیکھیں۔ جب خلیفہ بنے تو بے حد پریشان تھے ۔لونڈی نے آپ ؒ سے پریشانی کی وجہ پوچھی تو فرمانے لگے کیوں نہ پریشان ہوں ۔مشرق و مغرب میں سب  امت محمدیہ مجھ سے اپنا حق مانگ رہے ہیں۔میں تو بڑے امتحان میں پھنس گیا ہوں۔لونڈی سے کہا تم تو آزاد ہوجاؤ۔ایک کام تو کم از کم کرلوں۔  بیوی سے کہا کوئی لونڈی ، غلام یا نوکر نہیں ملے گا۔سب کام اپنے ہاتھ سے کرو گی ورنہ اپنے ماں باپ کے گھر جاؤ۔سرکاری خزانے سے کوئی سہولت نہیں دوں گا۔ لیکن وہ ایک غیرت مند خاتون تھی۔اس نے کہا جب خوشی اور راحت تھی تو تمھارے پاس تھی اب بھی تمھارے پاس رہوں گی۔چاہے خوشی نہ بھی ہو۔ ہمارے آج کے سیاست دان خلیفہ بننے کے لئے جو جھوٹ بولتے ہیں اور جتنا فراڈ کرتے ہیں۔اللہ ہمیں ان سے امان میں رکھے۔خلیفہ بننے کے بعد ٹیکسوں کی بھر مارکے ساتھ ساتھ مہنگائی کے بے تاج بادشاہ بن جاتے ہیں۔اور سوچتے نہیں کہ اس کا بوجھ غریب لوگ کیسے اٹھائیں گے۔  امیروں  پر ٹیکسوں اور مہنگائی کا کیا اثر ہوتا ہے۔اگر پٹرول مہنگا ہوتا ہے تو امیر کو اس سے کیا غرض ہے۔اس سے بس کا کرایہ بڑھے گا جس میں غریب نے سفر کرنا ہوتا ہے۔اگر آٹا،دال گھی کی قیمتیں بڑھ جاتی ہیں تو امیر کو کچھ نہیں ہوتا بھوکا تو غریب نے ہونا ہوتا  ہے جسے نہ روزگار ملتا ہے اور نہ اسے کوئی بھیک دیتاہے۔پہلے جب کبھی کسی دفتر میں آسامی خالی ہوتی تھی تو سیاست دان اس پر قبضہ کرکے اپنے لوگوں کو بھرتی کرلیتے تھے۔غریب پھر بھی خالی ہاتھ رہتا تھا۔لیکن ا ب تو نقشہ ہی بدل گیا۔اس خالی آسامی پر  لڑکیوں کو بھرتی کیا جاتا ہے۔جن کو اپنے خاندان کی کوئی فکر ہی نہیں ہوتی۔ اندازہ لگائیں جس شخص نے خاندان کو پالنا ہوتا ہے اسے بے روزگار کرکے اس کے سارے خاندان کو بھکاریوں کا خاندان بنا دیا گیا۔جس نے کسی کونہیں پالنا ہے اسے باروزگار کرکےاس پر احسانات کے انبار لگا دئے۔یہ سب فراڈ  صرف ووٹ کے لئے کیا جا رہا ہے۔کسی طریقے سے ان کے ووٹ حاصل کرکے اپنا ووٹ بینک بڑھا نا ہے۔تاکہ اگلی دفعہ کامیاب ہو کے پھر خلیفہ بن جائیں۔اور جب خلیفہ بن جائیں تو مہنگائی کا جن آزاد چھوڑ کر ان غریب اور  کچھلے ہوئے لوگوں کا مکمل جوس نکال دیں۔اور لوگ چیخیں یا نہ چیخیں کم از کم خلیفہ تو چیختا رہے کہ مہنگائی اس لئے ہوگئی کہ پچھلی خراب حکومتوں کا گند صاف کر رہے ہیں۔یا آئی یایم ایف ہمیں مجبور کررہاہے۔اگلی دفعہ کامیاب کرادو تو راحت آجائیگی۔اس دفعہ صرف خزانہ بھرنے کی باری ہے۔حالانکہ جب حضرت عمرؒ بن عبدالعزیز  خلیفہ بنے تو آپؒ نے شاہی اسطبل کے سارے گھوڑے بیچ ڈالے اور فرمایا کہ میرے لئے میرا خچر ہی کافی ہے۔ممکن ہے ہمارے آج کے خلفاء کے کتے، گھوڑے، بھینسیں بکریاٰں بھی ہیلی کاپٹر میں سفر کر رہی ہوں۔

Read in English

Hazrat Umar Bin Abdul Aziz (Rahimahullah)

The Birth of Hazrat Umar Bin Abdul Aziz (RAH)

Hazrat Umar bin Abdul Aziz was born in the year 61 AH in Medina. His mother Umm Asim was the granddaughter of Hazrat Umar Farooq RA. And his father Abdul Aziz was the governor of Egypt; he was the son of the famous Umayyad Caliph Marwan bin Hukam.

Lookd after:

Being a great member of the royal family Hazrat Umar bin Abdul Aziz was brought up with great pride and bliss. A lavish atmosphere was available to him. Special arrangements were made for his primary education. For this purpose, the services of Saleh bin Kaysan, a well-known scholar of Medina, were enlisted. From his childhood, special attention was paid to his religious and secular education. At a young age, he memorized the Holy Qur'an. When he became an adult, he went to Egypt with his father. But their company did not last long. After the death of his father, he went to Damascus at the request of his uncle Abdul Malik. Abdul Malik married his daughter Fatima to him.

Governance:

Hazrat Umar bin Abdul Aziz was a member of the royal family. Therefore, as soon as he regained consciousness, he held various positions. Wherever he went, he left pure examples of his good deeds and made a home in the hearts of the people. When Walid bin Abdul Malik offered him the governorship of Madinah, he accepted the offer on the condition that the officials would not be allowed to oppress the people.

As soon as Hazrat Umar bin Abdul Aziz became the Governor of Madinah, he established the first Majlis-e-Shura. He did not do anything without the advice of Majlis-e-Shura. He considered the opinion of the people to be credible in government affairs. He ruled over Madinah and Taif from 87 AH to 93 AH. During this time he worked so hard with justice that the people of Hijaz became his subjects. He implemented a number of reforms and did countless public welfare work. He was a special adviser during the reign of Caliph Sulayman. He gave many useful suggestions for improving government affairs.

Competency and Nomination for the Caliphate?:

Sulayman took the oath of allegiance from the Umayyads on a sealed envelope without revealing the name of the Crown Prince in his lifetime. When Sulayman died, Rajabin ibn Haywa gathered the Umayyads. When he opened and read the sealed envelope, the name of Hazrat Umar bin Abdul Aziz was written.

Hazrat Umar bin Abdul Aziz was a kind hearted man. He gathered the people the next day and said! "O, People! I have been appointed caliph without my will and public opinion. I don't consider myself worthy of the shackles of responsibility that have been placed around my neck. You can choose whomever you want." People shouted, "We have chosen you as our caliph, we have chosen you as our caliph."

Style of Governess:

Hazrat Umar bin Abdul Aziz actually wanted the revival of the Righteous Caliphate. As soon as he took charge of the Khilafah, he radically changed his lifestyle. According to the constitution, a royal ride was offered to him, but he returned it and said, "My mule is enough for me."

Realization of the People’s Rights:

When Hazrat Umar bin Abdul Aziz came home after taking charge of the Khilafah, he was very upset. The slave girl said, "Today is a happy day. Why are you ups?” He said, "Why should not I worry?" Today, there is no member of the Muhammadan Ummah in the East and the West who is not demanding his right from me, whether I have been written for it or not and whether I have been asked for the right or not.” Then he said to the slave girl, "from today you are free, you can go wherever you want.” He said to his wife Fatima, "If you want to live with me, you will not have prosperity. If you want, you can go to your Parents home." The loyal wife replied, "If I supported in prosperity, I will support you in hardship also."

Expenses:

When he was asked to pay for the royal stables, he said, "Sell the horses and deposit their price in the royal treasury."He also ordered the sale of other valuables and carpets of the palace.

After Resuming the caliph:

After becoming the caliph, the life of Hazrat Umar bin Abdul Aziz became very simple. Only one pair of clothes was left at the last minute. He used to wash and wear it again and again. At the time of death illness, Muslima bin Abdul Malik said to his wife Fatima: His shirt is dirty, people come for hospitality, change it”. She kept quiet. When he repeated, she said,” By God, there is no other shirt for him.” His home environment was also very simple. There was no maid to do the housework. All the work was done by his wife herself. Hazrat Umar bin Abdul Aziz had a great desire to be reminded of the Righteous Caliphate once again. Due to his simplicity and pure character, Imam Shafi'i has called him the fifth Rashida Caliph.

Written by Saiful Islam Khan

For The Distance Learning School

 

The Role of Parents in Child Education:تعلیمی نظام میں والدین کا کردار

Better Education for Better Life

کیا تعلیم کے لئے پرائیویٹ سکول سسٹم کامیاب تجربہ ہے؟حصہ ودم

تعلیمی نظام میں والدین کا کردار

ہم نے اس سے پہلے اس بات کا ذکر کیا تھاکہ تعلیمی نظام کو کامیاب یا ناکا م بنانے کے لئے پانچ ستون بہت ضروری ہیں۔اور سب سے پہلے ہم نے استاد یعنی پرنسپل کی بات کی۔ہم نے کہا تھا کہ استاد کو نبی اللہ نے والد کے درجے کے برابر فرمایا ہے۔اس لحاظ سے استاد کی کچھ خوبیاں ہیں۔ یعنی ایک استاد اور دوسرا والد۔یہی وجہ ہے ہم نے بھی استاد کو پہلی پوزیشن میں رکھا۔اوریہاں سے استاد کی افادیت اور اہمیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔استاد کا مقام دیکھنے کے بعد ہم اس نظام کے دوسرے اہم ستون یعنی والدین کا ذکر کرتے ہیں۔ہم جانے ہیں کہ تعلیمی نظام ایک ٹرائیکا ہے۔اور اس ٹرائیکا میں استاد، والدین اور طالب علم تین اہم بازو ہیں۔اگر ان میں سے ایک بازو بھی اپنا کام چھوڑدے گا تو مثلث یعنی ٹرائیکا نا مکمل ہوجائے گا ۔اس کا مطلب یہ ہے کہ تعلیم کا نام و نشان بھی نہیں ہوگا۔لیکن ہم نےحصہ اول میں ماحول اور حکومت کا بھی ذکر کیا ہے۔یہ دو عوامل ایسے ہیں کہ ان کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔یہ ہمارے تعلیمی نظام میں چمک پیدا کرتے ہیں۔اس لئے ا ن کی اہمت تسلیم شدہ ہے۔

 

والدین کے کردار کے سلسلے میں ہم بہت بد قسمت ہیں۔پاکستان کی اکثر آبادی دیہات میں رہتی ہے اور حفظان صحت کے اصولوں سے بالکل ناواقف ہیں۔سب سے پہلے اس کا اثر بچے پر ہوتا ہے۔بچہ اگر صاف ستھرا نہیں ہوگا تو دوسرے صاف بچوں کے مقابلے میں بے پرواہ نظر آتا ہوگا۔ایسے بچے دیہات کے سکولوں میں بہت نظر آتے ہیں۔اور کام چور بھی ہوتے ہیں۔اس کی بڑی وجہ ان کے والدین ہیں جوخود بھی لاپرواہ ہوتے ہیں۔ وہ نہ تو بچے کی جسمانی نشو نما کا خیال رکھتے ہیں اور نہ تعلیمی نشونما کی جانچ پڑتال کرتے ہیں۔

 

تعلیمی نظام کو کامیاب بنانے کے لئے سب سے پہلے والدین کے ذہن میں بچے کو کامیاب آدمی  بنانے کی تڑپ ہونی چاہئے۔لیکن زمینی حقائق بتاتے ہیں کہ ایسا ہوتا نہیں۔چونکہ والدین زیادہ تر خود ان پڑھ ہوتے اس لے وہ ایسا سوچ بھی نہیں سکتے۔اکثر لوگ پیسہ خرچ کرنے کی طرف مائل نہیں ہوتے۔وہ بچے کی مستقبل کو نہیں دیکھتے، بچت کو دیکھتے ہیں۔وہ یہ دیکھتے ہیں کہ بچے کی فیس اور داخلہ میں کتنی کمی کرائی جائے۔اس طریقے سے وہ سودے بازی پراتر آتے ہیں۔

 

نئے داخلوں کے دوران سکول والوں کا آدھا دماغ مفلوج ہوا ہوتا ہے۔دوسری جانب جب والدین داخلوں، فیسوں اور سٹیشنری کے اخراجات  کی رقم سنتے ہیں تو ان کا بھی سر چکرا جاتا ہے۔اور دل ہی دل میں سودے بازی کا فارمولا بنا دیتے ہیں۔اور اس وقت تک دفتر کو نہیں  چھوڑتے جب تک فیس کو آدھی اور داخلہ فیس کو معاف نہیں کرا دیتے۔مطلب یہ کہ تمام مراحل میں ولدین  ایسا نہیں سوچتے کہ خوشی سے سکول والے کا حق ادا کریں۔سکول والا یہ خسارہ کیسا پورا کرتا ہے۔وہ ہم نے حصہ اول میں  بتا یا ہے۔کیا آپ نے سوچا کہ اس سارے عمل کے دوران والدین نے ایک بار بھی نہیں پوچا ہوگا کہ آپ کے سکول میں پڑھائی کیسی ہوتی ہے؟کیا سکول میں ٹیچر ہر وقت ہوتے ہیں؟یا ہمارا بچہ کچھ سیکھ لے گا یا نہیں؟صرف یہی نہیں، سارا سال نہیں پوچھتے۔اسی کو تو بدقسمتی کہتے ہیں۔پھر کہتے ہیں تعلیمی نظام ناکام ہے۔

 

ایک اور بد قسمتی دیکھیں۔کلاسیں شروع ہوگئیں اور پڑھائی بھی شروع ہوگئی۔اگلے مہینے جب سکول والے فیس مانگتے ہیں تو بچہ بولتا ہے امی کہتی ہیں اگلے مہینے ڈبل فیس دیدیں گے۔اگلے مہینے پھر یہی کہتا ہے اور اسی طرح فیس نہ دینے کے بہانے شروع ہوجاتے ہیں۔اسی طرح  کئی مہینے گزر جاتے ہیں۔آخر کارسکول والا جب تنگ آجاتا ہے تو سختی سے کہتا ہے کہ فیس لے آؤ۔بس یہ کہنے کی دیر تھی۔ اگلے دن بچہ موجودہ سکول سے نکل کر کسی اور سکول میں داخل  ہوا ہوتا ہے۔یہ صرف سکول کو ناکام کرنے والی بات نہیں ہے اپنے بچے کا گلہ دبانے والی بھی بات ہے۔سکول والے کی فیس ڈوب گئی اور بچے کا سیکھنے کا عمل رک گیا۔اس کا ایک برا پہلو یہ ہے کہ سکول والے کی آمدن میں کمی ہوجاتی ہے۔بعض حالات میں تو وہ اخراجات پورا کرنے کے قابل بھی نہیں ہوتا۔نتیجتاً وہ یا تو کم تعلیم یافتہ اور کم تنخواہ پر ٹیچر رکھ لیتا ہے۔یا ورنہ ساراسال ٹیچر آیا اور ٹیچر گیا والا کام کرتا ہے۔لیکن نقصان بچے کا ہے اور بچے کے والدین کا ہے۔ہونا یہ چاہئے کہ والدین اچھے تعلیمی ادارے کا انتخاب کریں،بروقت واجبات کی ادائیگی کریں،استاد پر نظر رکھیں، موبائل اور دوسری فضولیات سے بچے کو دور رکھیں اور بچے کے سیکھنے کے عمل کا تجزیہ کرتے رہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ بچہ نہ سیکھے۔

 

تعلیمی نظام کی ناکامی کاایک اور پہلو یہ بھی ہے کہ پرائیویٹ سکولوں کی پہلے ہی بہت بڑی تعداد ہے۔لیکن ہر سال اس میں رجسٹرڈ اور غیررجسٹرڈ سکولوں کا اضافہ بھی ہوتا رہتا ہے۔لیکن بچے اتنی تیزی اور کثرت سے پیدا نہیں ہوتے۔اس لئے سکولوں میں پڑھنے والے بچے تقسیم ہو جاتے ہیں۔ہر سکول والا اس دوڑ میں ہوتا ہے کہ کسی طریقے سے اس کے پاس داخلےآئیں۔تاکہ وہ اپنے اخراجات کو پورا کر سکیں۔لیکن کامیاب ایک بھی نہیں ہے۔ کیونکہ کسی کے پاس بھی اخراجات کو پورا کرنے کے لئےدرکار بچے نہیں ہوتے۔اس دوڑ میں وہ فیس کم کرکے آگے نکلنے کی کوشش کرتے ہیں۔لیکن کیافیس کم کرنا اچھے سکول کی نشانی ہے؟یہ تو پرنسپل اپنے پاؤں پر خود کلہاڑی مارنے کی کوشش کرتے ہیں۔ہونا تو یہ چاہئے کہ معیار کو ہتھیار بناکر مقابلہ کریں۔لیکن  جب وہ ٹیچر کو رکھ نہیں سکتے  تو معیار کہاں قائم کر سکتا ہے۔اس کا تو حال یہ ہے کہ اگر دس بچے اس پاس داخل ہوگئے تو آٹھ کم فیس کے چکر میں اس سے جا کر دوسرے سکول میں داخل ہو جائیں گے۔سکول والوں کی یہ سب سے بڑی بیماری ہے کہ  وہ کبھی معیار اور تعلیم کے لئے ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھ کر مشورہ نہیں کرتے بلکہ آپس میں ایک دوسرے کی ٹانگ کھنچتے رہتے  ہیں  اور ایک دوسرے کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔ والدین  کو چونکہ ان باتوں کا علم نہیں ہوتا اس لئےوہ تو صرف کم فیس کو ہی دیکھتے ہیں۔کم فیس کے چکرمیں اپنے علاقے کے نزدیک سکول کو چھوڑ اکسیڈنٹ کا خطرہ تو ہے لیکن پرواہ نہیں۔ گرمی سردی اور بارش آندھی گھیر لے تو بھی چل جاتا ہے۔شکر ہے دہشت گردی ختم ہوئی ورنہ اس سے بھی نہیں ڈرتے تھے۔کم فیس کی لالچ نے ان لوگوں کو کتنا بہادر بنا دیا ہے۔ایسے بچے میٹرک کرنے کے بعد کسی انٹر ویو یا ٹیسٹ کے لئے جاتے ہیں تو فیل ہو جاتے ہیں بلکہ اکثر نے انٹرویو یا ٹیسٹ سے پہلے سفارش تلاش کی ہوتی ہے۔بعض والدین کے تو جوتے سفارش تلاش کرتے کرتے پھٹ جاتے ہیں۔ لیکن سفارش  کرنےوالے بھی بڑے سمجھ دار ہیں۔خدا بچائے اس عذاب سے۔اب آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ ہماراتعلیمی نظام ناکام تجربہ ہے یا نہیں۔

شکریہ

Read in English

 

Thanks for the visit     


میراث میں عورت کے ساتھ نا انصافی

میراث  میں عورت کے ساتھ نا انصافی

اسلام ایک مکمل دستور ہے، انسانی زندگی میں پیدائش سے لے کر آخری آرام گاہ تک جتنے بھی موڑ آسکتے ہیں اسلام نے ہر شعبہ میں راہنمائی کی ہے اور اسلام نے اپنے پیروکاروں کی راہبری کرتے ہوئے بے حد عادلانہ اور منصفانہ نظام پیش کیا ہے۔ اسلام نے انسانی زندگی کے مسائل کے ساتھ ساتھ موت کے بعد آنے والے مسائل کا حل بھی بتایا ہے، جن میں سے ایک اہم مسئلہ اس کی املاک وجائیداد کی تقسیم کا ہے۔ شریعت کے دیگر احکام کے مقابلے میں میراث کو یہ خصوصیت اور امتیاز حاصل ہے کہ اللہ باری تعالیٰ نے بذات ِخود اس کی تفصیلات کا ذکر کیا ہے۔

نماز روزہ کے احکام بھی اتنی تفصیل کے ساتھ ذکر نہیں کیے گئے جتنا ذکر میراث کا کیا گیا ہے۔ اور سب سے اہم اور قابل ِغور بات یہ کہ میراث کو فرضیت من اللہ اور حدود اللہ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اور اسی کی بناء پر شریعت میں قانونی میراث کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ آج نام نہاد اور خود ساختہ مفکرین و دانشور جو مغرب کی طرف سے آنے والی ہر شے کو نعمت ِغیر مترقبہ سمجھتے ہیں اور اس کو موضوع بحث  اور اس پر ایمان بالغیب لانے کو روشن خیالی سمجھتے ہیں اور وہ لوگ اپنی محدود اور کم عقل سے اپنی جھوٹی اور سستی شہرت حاصل کرنے کے لیے اسلام کے بعض احکام کو قابلِ ترمیم و تنسیخ قرار دیتے ہیں۔ انکا ایک اعتراض یہ ہے کہ اسلام نے صنفِ نازک کے ساتھ  نا انصافی کی ہے، جس کی بناء پر عورتوں کی تذلیل اور انکی حق تلفی ہوتی ہے۔ عورت کا حصہ مرد کے مقابلے میں نصف ہے۔ یہ اعتراض یا پروپیگنڈہ ان لوگوں کی طرف سے کیا جاتا ہے، جن کے اپنے مذہب میں عورت کو وراثت میں کوئی حق دیا جاتا ہے نہ کوئی حصہ۔ سب سے اہم  بات یہ ہے کہ ان کے ہاں تو عورت کو مملوکہ چیزوں کی طرح منتقل کیا جاتا ہے۔ اگر کسی عورت کا مرد انتقال کر جاتا ہے تو اس کی مرضی کے بغیر اس کے ساتھ شادی کر لی جاتی ہے اور اس کا مہر مار لیا جاتا ہے اور دوسری بات یا تو کسی اور سے شادی کر دی جاتی ہے اور اسکا مہر خود رکھ لیا جاتا ہے اور اگر پھر بھی بات بنتی نظر نہ آئے تو پھر اس کو عمر بھر بیوہ رہنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔مگر اسلام نے مرد کے ساتھ ساتھ عورتوں کا حصہ بھی مقرر کیا ہے۔

للرجال نصیب مما ترک الوالدان والاقربون، وللنسآء نصیب مما ترک الوالدان والاقربون مما قل منہ او کثر، نصیباً مفرو ضاً۔

( ترجمہ : ماں باپ اور رشتہ داروں کے ترکے میں سے مردوں کا حصہ ہے اور ان کے ترکے میں عورتوں کا بھی حصہ ہے خواہ تھوڑا ہو یا زیادہ اور یہ حصے (خدا کی طرف سے ) مقررہ ہیں۔النساء ۔

اس کے علاوہ اللہ باری تعالیٰ نے عورتوں پر ہونے والے ظلم کو روکنے کے لیے بھی حکم فرمایا ہے۔ اسلام حقوق و نسواں کا اولین علمبردار ہے اور اسلام نے ہی عورت کو پستی سے نکال کر بلندیوں پر چڑھایا اور عورتوں کے حقوق کی نمائندگی کی ہے۔ وراثت سے حصہ پانے والے اصحابِ فرائض میں مرد کے مقابلے میں عورتوں کی تعداد زیادہ رکھی گئی ہے۔ جہاں چار مرد۔ باپ، دادا، ماں شریک بھائی، اور شوہر کو حصہ دیا گیا ہے تو وہیں آٹھ عورتوں بیوی، بیٹی، پوتی، حقیقی بہن، ماں شریک بہن، ماں، دادی یا نانی کو حصہ دیا گیا ہے۔ اسلام میں عورتوں کو مثالی حقوق  دیے گئے ہیں اور یہ نہ تو کسی مذہب میں دیے گئے ہیں اور نہ کسی تہذیب میں کوئی ذکر ہے۔

نرینہ اولاد پر اتنی مہربانی کیوں؟

یہ صرف غیر مذاہب یا امریکہ اور یوروپ سے آنے والے ماڈرن مسلمانوں کی بات نہیں۔پاکستان میں رہنے والے مسلمانوں کی حالت بھی یہی ہے۔یہ لوگ بھی بیٹیوں سے نفرت کرتے ہیں۔اور نرینہ اولاد پر حد سے زیادہ مہربان ہوتے ہیں۔بیٹے صرف کما کر پیسے دیتے ہوں گے لیکن بیٹی تو عمر بھر کی خادم ہوتی ہے۔جبکہکچھ بے وقوف لوگ اپنی بیٹیوں کے ساتھ سیاست کھیلتے ہیں۔اور ایسا تاثر قائم کرتے ہیںجیسے یہ اس کی بیٹی ہی نہیں ہے۔ یا جیسے اس کو اس کا باپ ہونے پر شرمندگی ہے۔جتنا ظلم آج کل یہ سمجھدار لوگ اپنی بیٹیوں پر کرتے ہیں،  بس یہ انتہا ہے۔کئی کئی حج کرنے کے بعد بھی، کثرت سے مال و زر کی خوشیاں حاصل ہونے کے بعد بھی، تہجد کے لئے راتوں کو جاگ کر بھی اور لوگوں میں الحاج مشہور ہونے کے بعد بھی بیوقوفوں کا پیٹ خالی رہتا ہے۔ اندازہ لگائیں جو لوگ ایسے حالات میں بھی بیٹی کا حق اپنی زندگی میں  ہڑپ کرکےخوداپنے بیٹوں کو دے دیتے ہیں۔تویہ اپنی ہی بیٹی کو شکست دینے کے برابر ہے۔اور یاد رکھیں  بیٹی کو حق اللہ تعالیٰ نے خود دیا ہے۔اسے کوئی مائی کا لال دبا نہیں سکتا۔جو بھی اسے دبانے کی کوشش کرے گا اس کا مطلب یہ لیا جائے گا کہ اس نے اللہ تعالیٰ کے قانون کو چیلنج کیا ہے۔اللہ تعالیٰ قانون بنانا بھی جانتا ہے، اپنے قانون کی حفاظت کرنا بھی جانتا ہے،جو اس کے قانون کو چیلنج کرے گا اس کو گرفتار بھی کرسکتا ہے۔ان نالائقوں کو یہ معلوم نہیں ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ سے چھپ کر کہیں نہیں جا سکتے۔اس نے اپنی بیٹی یا بہن کا گلا گھونٹ دیا، اللہ تعالیٰ اسے ضرور سزا دے گا۔اور تعجب کی بات دیکھیں۔ ان لوگوں نے بہن یا بیٹی کا گلا اپنے لئےنہیں گھونٹا۔اپنے لئے تو انہوں نے جہنم کی آگ کا انگار اکٹھا کیا۔یہ سب کچھ انہوں نے اپنی نرینہ اولاد کے لئے کیا۔کیایہ نرینہ اولاد اس نفسی نفسی کے عالم میں ان کے لئے کچھ کر سکے گی؟کبھی نہیں اور کچھ بھی نہیں کرے گی۔ارے خدا کے بندو! یہ اولاد اتنی طوطا چشم ہے کہ ان کو پتہ ہوگا ہمارے والد نے صرف ہماری خاطر جہنم کی آگ میں کودا۔لیکن دعا کے چند الفاظ بھی اپنے والد کے لئے شائد نہ کہیں۔آخرت میں اگر کچھ کرنا بھی چاہیں تو اس ہیبت ناک منظر میں نہیں کر سکیں گے۔

اسلام سے قبل مالی نظام دولت جمع کرنے پر تھا۔جبکہ یہودیوں اور ہندوؤں میں بھی عورت کا کوئی حق نہیں تھا۔زمانہ جاہلیت میں تمام تر وراثت کا حقدار لڑنے اور دفاع کرنے والے کو سمجھا جا تا تھا۔بچوں اور عورتوں کو ان کا حق نہیں دیا جاتا تھا۔اسلامی نظریہ کے مطابق نظام معیشت کی بنیاد ایسے رکھی گئی کہ دولت کی زیادہ سے زیادہ تقسیم ہو۔مردوں اور جوانوں کے ساتھ ساتھ عورتوں اور بچوں کے لئے بھی میراث میں حق دیا گیا۔تقسیم میراث کا  ایسامتوازن نظام قائم کیا گیا جس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ عورت بھی اپنا حق رکھتی ہے۔اور اس کو اس کا حق شریعت کے مطابق ملنا چاہئے۔ہمارے معاشرے میں عورت کا کردار بہت ہی اہم ہے۔اور یہ بات ذہن میں رہنی چاہئے کہ ہر عورت ایک ماں ہوتی ہے۔اور اس کے وہ لمحات جس میں وہ اپنے بچے کو جنم دیتی ہے,جان پر کھیلنے کی بات ہے۔عورت معاشرے میں  اس وقت زندہ رہ سکتی ہے جب اس کو اپنا حق ملے گا، جب اس کو پہچان ملے گی، جب اس کو عزت اور تحفظ ملے گا۔عورت ماں کو کہا گیا ہے اور ماں کے قدموں میں جنت ہوتی ہے۔معاشرے میں عورت کی عزت کا تحفظ اور عورت کی حوصلہ افزائی بے حد ضروری ہے۔اور یہ ہر انسان کا اخلاقی فرض بھی ہے۔

وراثت،ظالم اور مظلوم پڑھیں اورحقائق جانیں

Read in English

Written by Saiful Islam Khan

    for  The Distance Learning School



Thanks for the visit     

Other Useful Links:

BISE Previous Papers

Conversations

Essays

Applications

Letters

Stories

Introduction to English Grammar

Introduction to Urdu Grammar

thedistancelearningschool.blogspot.com

 

 


Post an Article Directly Here

 

The Need of Advertisement for Schools

Better Education for Better Life


Top Reasons we should know why to Advertise

We understand you know why advertisement is important for your business promotion. How can you choose the best media for your products promotion and what happens when you choose not to advertise. In this article we give you a little more idea.

Definition of the Advertisement:

An advertisement or advert or ad is the promotion of a product, brand or service to buyers in order to attract interest, engagement and sales. Advertisements can be in many forms, ranging from copy to interactive video.

The importance of the Advertisement:

Advertisements guarantee that you will reach an audience. By creating an engaging advert, and spending enough to reach many users, advertisements can have an immediate impact on business. Your improved trade results or boosted brand recognition may show the difference.

Outcomes of the Advertisement:

Advertisement is not a useless thing we do:

1.   Effective Advertisement creates effective awareness among the customers. Normally customers hesitate to call you if you are not known to them. Advertisements make you known to the shying customers.

2.   A customer can give you preference if he knows you. Advertisements encourage customers to prefer you.

3.   When you advertise, it reinforces your company with existing customers. You might have not imagined that your competitors want your customers. But advertisement can make it easier for you to retain your customers. Retaining your present customers is better than replacement.

4.   Make sure you are visible in people. Advertisements make you more visible than your competitors.

5.   Make your company appear larger than it is. Even if you are not the leader, advertisement will make it appear that way.

6.   By doing effective advertisement you can maintain your position in the market.

7.   By doing effective advertisement you can challenge your competitors and let them not control the message in the market.

How to advertise?

You have the choice to choose one of the following:

1.   Place a banner on our website.

2.   Engage a Spot on our slideshow.

3.   Place a page on our website for your school (See sample page).

4.   Subscribe to our newsletter and place ad on it.

 The Distance Learning School Team



Thanks for the visit