Showing posts with label Essays in Urdu. Show all posts
Showing posts with label Essays in Urdu. Show all posts

Essay in Urdu: میرا پسندیدہ کھیل

Better Education for Better Life


مضمون: میرا پسندیدہ کھیل

کرکٹ ہر کسی کا بہت پسندیدہ کھیل ہے۔ہم سب کرکٹ کو پسند کرتے ہیں لیکن میں سب سے زیادہ پسند کرتا ہوں۔ہم روزانہ ایک چھوٹے سے گراؤنڈ میں کھیلتے ہیں۔چونکہ یہ کھیل بہت دلچسپ ہے اس لئے ہر عمر کے لوگ اس کو پسند کرتے ہیں۔لوگوں کی اپنی پسندیدہ ٹیمیں ہیں اور وہ اپنی پسند کی ٹیم کے لئے جیت کو پسند کرتے ہیں۔اور اس انتظار میں ہوتے ہیں کہ کھیل ختم ہوجائے اور اس کے بعد وہ تھوڑا آرام کرلیں۔

چھوٹے بچوں میں کھلنے کا بہت جذبہ ہوتا ہے  اور ہر کوئی اچھا کرکٹر بننا چاہتا ہے۔لیکن وہ  اس کھیل سے زیادہ متاثر بھی ہوتے ہیں۔کرکٹ انڈیا، پاکستان، ویسٹ انڈیز ، سری لنکا، نیدر لینڈ، آسٹریلیا، جنوبی آفریقہ، نیوزی لینڈ، زیمبوابے اور بنگلہ دیش کے علاوہ دنیا کے کئی ملکوں میں کھیلا جاتا ہے۔کرکٹ کے میچ عموماً پانچ دنوں کے لئے کھیلے جاتے ہیں جن میں ایک دن آرام کے لئے ہوتا ہے۔اس میں دو ٹیمیں اور ہر ٹیم میں گیارہ گیارہ کھلاڑی ہوتے ہیں۔مکمل میچ صرف دو ایننگ کا ہو تا ہے۔

میچ میں دو مخصوص کھلاڑی ہوتے ہیں۔ان میں سے کو بالر اور دوسرے کو بیٹسمین کہتے ہیں۔وہ ایک دوسرے کے ساتھ تبدیل ہوتے ہیں جب ان کا  بالنگ کا نمبر ختم ہوتا ہے یا  اوور ختم ہوجاتا ہے۔کھیل شروع ہونے سے پہلے ٹاس کیا جاتا ہے تاکہ یہ فیصلہ ہوجائے کہ کس ٹیم نے پہلے بیٹینگ کرنی ہے۔جو ٹیم ٹاس جیت جاتی ہے وہ پہلے بیٹینگ شروع کردیتی ہے۔جب کہ مخالف ٹیم بالنگ کرتی ہے۔بیٹینگ  اور بالنگ کا وقت دونوں ٹیموں کو ملتا ہے۔جب کبھی چوکا یا چھکا کے لئے بال پھینکا جاتا ہے تو گراؤنڈ میں  سے کرکٹ کے شوقین لوگوں کی ایک  زبردست خوشی کی آواز آتی ہے۔یہ آواز خاص کر اس وقت زیادہ آتی ہے جب پسندیدہ ٹیم کی طرف سے بالنگ ہوتی ہے۔

Download

Read in English

More Essays

Thanks for the Visit

Other Useful Links:

Essay in Urdu:صبح کی سیر

Better Education for Better Life


مضمون: صبح کی سیر

صبح کی سیر صحت کے لئے کتنی ضروری ہے ،اس کے بارے میں دو مختلف آراء نہیں ہو سکتی۔مارننگ واک سے زیادہ کوئی غذا یا دوا بہتر فائدہ نہیں دے سکتی۔یہ سب سے ہلکی مشق ہے اور زندگی کے ہر عمر کے افراد کے لئے مفید ہے۔یہ ہمارے دماغ کو ترو تازہ رکھتا ہے اور ہمارے  جسم کو بھی صحیح رکھتا ہے۔میں روزانہ صبح سات بجے صبح کی سیر کے لئے جاتا ہوں۔جیسے ہی میں گھر سے باہر نکلتا ہوں، ٹھنڈی ہواؤں کے جھونکے میرا استقبال کرتے ہیں۔راستے پر میں گندم کی کھیتوں سے گزر جاتا ہوں۔کھیتوں کا یہ سلسلہ ایک زبردست منظر پیش کرتا ہے۔پرندوں کے چہکنے سے میرے جسم  میں روحانی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے۔

کچھ زمیندار کھچ نہ کچھ فاصلوں پر اپنے کھیتوں ہل چلارہے ہوتے ہیں ۔ اس دوران مجھے ایک چھوٹے سے گاؤں سے بھی گزرنا ہوتا ہے۔ جس میں کچھ جوان عورتیں اپنی ضرورت کے لئے پانی لا رہی ہوتی ہیں۔وہ گیت گا رہی ہوتی ہیں۔ مجھے تو ان کے گیتوں سے بڑا مزا آتا ہے۔

اس وقت مشرق سے سورج کا سنہرا گیند بھی نظر آنے لگتا ہے۔افق پر سنہری کرنیں چمک جاتی ہیں۔ان سنہری کرنوں سے منظر بڑا دلکش اور پُر رونق ہوجاتا ہے۔میں چلتا جاتا ہوں اور چلتا جاتا ہوں تا آنکہ میں اس گاؤں سے نکلنے والی ندی تک پہنچ جاتا ہوں۔ تھوڑا آرام کرنے کی غرض سے میں اس ندی کے کنارے بیٹھ جاتا ہوں۔کچھ دیر بیٹھ جانے کے بعد میں وہاں باغ اور خوبصور کھیتوں میں ہری گھاس پر ننگے پیر چلنا شروع کرتا ہوں۔سچ ہے کہ ان کھیتوں اور باغ کے پھولوں کی خوشبو سے مجھے بہٹ  فرحت ملتی ہے۔

جب میں صبح کی سیر سے واپس گھر آتا ہوں تو مجھے سارا منظر بدلا ہوا نظر آتا ہے۔تما چیوں اور آوازوں کا میرے دماغ پر ایک عجیب اثر ہوتا ہے۔میرا دماغ تازہ اور تاقتور ہوجاتا ہے۔ سکول کے  جس کام سے میرے دماغ پر بھاری مشقت کا بوجھ پڑا ہوا تھا، اب ایسا لگ رہا ہے جیسے وہسب کچھ جا چکا ہو۔اب مجھے احساس ہو رہا ہے کہ میں سارا دن خوب محنت کرنے کے قابل ہوگیا ہوں۔

 Download

Read in English

More Essays

Other Useful Links:

BISE Previous Papers

Conversations

Essays

Applications

Letters

Stories

Introduction to English Grammar

Introduction to English Grammar

thedistancelearningschool.blogspot.com

 









Essay in Urdu: یوم والدین

Better Education for Better Life

 مضمون:  یوم والدین

زندگی تہواروں اور خوشی کے پروگراموں کے بغیر بالکل بے مزہ اور بے جان ہوتی ہے۔کچھ ہی دنوں پہلے ہمارے سکول میں  سالانہ یوم والدین بڑے جوش خروش کے ساتھ منایا گیا۔یہ ایک شکر ادا کرنے کا دن ہوتا ہے۔پچھلے سال ہمارے سکول میں یوم والدین 10 اکتوبر کو منایا گیا تھا۔دن بالکل صاف اور سورج چمک رہا تھا۔اور ادھر اُدھر کچھ بادلوں کے جھرمت بھی تھے۔

سکول کی طرف جانے والا راستہ زبردست طریقے سجایا گیا تھا۔بچوں کا ایک ٹولہ جو روایتی لباس پہنا ہوا ،اور پریوں کی طرح سجا ہوا راستے پر مہمانوں کہ خوش آمدید کہہ رہا تھا۔

پروگرام 9 بج کر تیس منٹ پر شروع ہوا۔سب سے پہلے تلاوت کلام پاک ہوا ۔اس کے بعد مہمان خصوصی اور دوسرے معزز مہمانوں کو خوش آمدید کہا گیا۔خٹک ڈانس کرنے والا ایک گروپ ان کو پہلے سے مزین ہال کی طرف لے گیا۔ہمارے اس پروگرام کا مہمان خصوصی پشاور کے لئے نیا ڈپٹی کمشنر تھا۔

جیسے ہی مہمان خصوصی ہال میں پہنچ گیا  تو سکول کے بینڈ کے دستے نے اپنے مخصوص سُر گانے شروع کئے۔سکول کے بچوں کے چھ گروپ تھے۔وہ اپنے مخصوص لباس میں سکول کے بینڈ کے ساتھ پریڈ کر تے ہوئے بھی آئے۔مہمان خصوصی اپنے سیٹ پر بیٹھ گئے اور بڑی خوشی کا اظہار کرتے ہوئے بچوں کو داد دیتے رہے۔مارچ پاسٹ کے ختم ہوتے ہی اس نے سکول کا پرچم بچوں کی پُر زور تالیوں کے ساتھ لہرایا۔

اس کے بعد مہمان خصوصی کچھ کلمات ادا کئے جس کے بعد بچوں نے کچھ مشقیں کیں۔ اس دن کے پروگرام کا اختتام دو گھنٹے تک جاری رہنے والے ثقافتی پرگرام پر ہوا۔

Download

Read in English

More Essays

 

Thanks for the visit     

Essay in Urdu: میرا پسندیدہ مشغلہ

Better Education for Better Life

 مضمون: میرا پسندیدہ مشغلہ

شوق ایک دلچسپ تفریح ہے۔ یہ فارغ اوقات کا ایک ایسا  کام ہے۔جسے ہم تفریح اور نفع دونوں کے لئے استعمال کرتے ہیں۔مشغلہ کا مطلب پیسہ کمانا ہر گز نہیں۔بہر حال کسی نہ کسی شکل میں اس سے پیسے آ ہی جاتے ہیں۔مختلف لوگوں کے مشغلے مختلف ہوتے ہیں۔

مشغلوں کی مختلف قسمیں ہیں ۔ان میں سے ایک مشغلہ ٹکٹ اور سکے اکٹھا کر نا بھی ہے۔کچھ لوگ پھول اور پتے اکٹھا کرتے ہیں۔ کچھ باغبانی پسند کرتے ہیں اور کچھ لوگ مٹی سے مختلف اشیاء بناتے ہیں۔کچھ اندرون خانہ کھیلے جانے والے کھیل یا تاش کھیلتے ہیں۔ جبکہ کچھ لوگ بیرون خانہ کھیلے جانے والے کھیل جیسے  کرکٹ، فٹ بال یاہاکی وغیرہ کھیلتے ہیں۔پسندیدہ مشغلوں سے نہ صرف تفریح ملتی ہے بلکہ ان میں تعلیمی پہلو بھی ہیں۔

میرا پسندیدہ مشغلہ فوٹو گرافی ہے میرے پاس ایک چھوٹا سا کیمرہ بھی ہے۔میں نزدیک کی خوبصورت جگہوں کی تصویریں لیتا ہوں۔خود اپنی جگہ پر اپنی تصویروں کو صاف کرتا ہوں۔اس مقصد کے لئے میرے پاس ایک چھوٹا سا ڈارک روم ہے۔ میں اپنی تصویروں کو مختلف اخبارات اور میگزینوں میں دیتا ہوں۔اور اس سے مجھے کچھ پیسے بھی ملتے ہیں۔فوٹو گرافی سے بہت سے پیسے کمائے جا سکتے ہیں۔میں در اصل زندگی میں رنگ بھرنا چاہتا ہوں اور اسے اصل حسن دینا چاہتا ہوں۔مجھے امید ہے میں اس میں کامیاب ہو جاؤ ں گا۔ میرا ارادہ کہ میں اپنے ارد گرد کے علاقوں اور دیہات میں اپنی تصویروں کی نمائش کا اہتمام کروں۔

مشغلہ کا مطلب صرف تفریح نہیں ہے۔اس سے ہمیں ایک ایسا علم ملتا ہے جو عام طور پر کتابوں سے ہمیں نہیں ملتا۔دماغی توانائی کے ساتھ ساتھ یہ کسی انسان کے فالتو وقت کو گزارنے کے لئے ایک زبردست ذریعہ بھی ہے۔ایک کہاوت مشہور ہے کہ خالی ذہن شیطانوں کا ورک شاپ ہو تا ہے۔اس لئے کسی کو بھی اور کبھی بھی خالی الذہن نہیں ہونا چاہئے۔

Download

Read in English

More Essays

 Other Useful Links:

BISE Previous Papers

Conversations

Essays

Applications

Letters

Stories

Introduction to English Grammar

Introduction to English Grammar

thedistancelearningschool.blogspot.com

Essay in Urdu: تاریخی مقام کی سیر

Better Education for Better Life


مضمون : تاریخی مقام کی سیر

اس سال گرمیوں کی چھٹیوں سے تقریباً ایک ہفتہ پہلے  ہماری کلاس نے پشاور کے عجائب گھر کی سیر کے لئے جانے کا پروگرام بنایا۔ہمارے تاریخ کے استاد صاحب نے ہم سے کہہ رکھا تھا کہ وہ ہمیں  ایک دن کسی تاریخی مقام کی سیر کرائیں گے۔چنانچہ پشاور عجائب گھر جانے کا فیصلہ ہوا۔اور روانگی کے لئے ہفتے کا دن اور صبح آٹھ بجے کا وقت طے پایا۔اس سلسے میں بڈھ بیر کی ایک بس کرایہ پر لے لی گئی۔

مقررہ تاریخ پونے آٹھ بجے ہی  تمام لڑکے سکول میں جمع ہوگئے۔مروت صاحب پہلے سے وہاں موجود تھے۔اور سارے انتظامات کا جائزہ لے رہے تھے۔انہوں نے وہاں کلاس کی حاضری بھی لگائی۔تقریباً سوا آٹھ بجے آگئی۔اور ہم سب خوشی خوشی اس میں سوار ہوگئے۔بس چل پڑی اور ہم لوگ جیسے ہوا میں اڑنے لگے۔ہر طالب علم کا چہرہ خوشی سے چمک رہا تھا۔ میرے لئے اس قسم کی سیر کا پہلا موقع تھا۔اس لئے میری خوشی دوسروں سے کچھ زیادہ ہی تھی۔ہم سب آپس میں ہنستے اور باتیں کرتے جا رہے تھے۔اور عجائب گھر کے تصور میں کھوئے ہوئے تھے۔کہ معلوم نہیں وہ کس قسم کی جگہ ہوگی اور وہاں کیا کیا ہوگا۔

ہماری بس فراٹے بھرتی چلی جا رہی تھی۔راستے میں کئی نئی جگہیں ہم نے دیکھیں۔مختلف گاؤں اور قصبے ہمارے راستے میں آئے اور گزر گئے۔کوئی گیارہ بجے کا وقت ہوگا کہ ہماری بس رینگ روڈ سے گزر رہی تھی۔آخر ہماری منزل آگئی۔بس ایک دم ایک جھٹکے کے ساتھ رک گئی۔معلوم ہوگیا کہ عجائب گھر آگیاہے۔ سب طلباء اور مروت صاحب بس سے نیچے اتر گئے۔

اب ہم مختلف ٹولیوں کی شکل میں ادھر اُدھر ٹہلنے لگے۔کچھ لڑکے کھیلنے میں مصروف ہوگئے۔ہم لوگ کھانا پکانے کا سامان اور ایک باورچی بھی ساتھ لے گئے تھے۔باورچی نے وہاں پہنچتے ہی وہاں کھانا پکانا شروع کردیا۔ہم عجائب گھر کے ہال کے اندر گئے۔ عجائب گھر کے کئی حصے تھے جہاں پر کئی مجسمے تھے۔ان میں گوتم بدھ کے مجسمے خاص طور پر نمایاں تھے۔اس کے علاوہ مختلف قسم کے تلوار اور سامان حرب بھی ہم نے دیکھا۔جسے پرانے زمانے کے لوگ جنگ کی حالت میں استعمال کرتے تھے۔ کتابوں کے پرانے اور نایاب نسخوں نے  عجائب گھر کی زینت میں نمایاں اضافہ کیا تھا۔اس کے علاوہ اور بے شمار چیزیں جو دیکھنے والی تھیں، ہم نے دیکھیں۔پشاور کا عجائب گھر واقعی لاجواب تاریخی جگہ ہے۔عجائب گھر ہمیں وہ تاریخی حقائق یاد دلاتا ہے جو ہم  نے نہیں دیکھے ہیں۔مگر وہ تاریخ کا حصہ ہیں۔اور جس سے صوبہ پختونخوا کی پہچان ہوتی ہے۔

سیر کے بعد ہم نے دوپہر کا لھانا کھایا، گھنٹہ بھر آرام کیا اور تین بجے بس میں سوار ہوکر واپس چلے آئے۔میں تو پہنچ کر کافی تھکا ہوا تھا۔اس لئے جاتے ہی سویا۔اگلے دن صبح اٹھا تو آٹھ بج چکے تھے۔فوراً تیاری کی اور سکول چلا گیا۔


Download

Read in English

More Essays


Thanks for the visit     

Essay in Urdu:منشیات ایک لعنت ہے

Better Education for Better Life

مضمون: منشیات ایک لعنت ہے

اللہ تعالیٰ نے اس زمین پر انسان کو اپنا نائب اور خلیفہ مقرر کیا ہے۔اسے کائنات کی ہر شے سے افضل اور اشرف قرار دیا ہے۔اسے علم و حکمت سے نوازا اور سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت عطا کی۔انسان نے اپنی عقل و دانش سے کام لے کر سائنسی میدان میں بے پناہ کارنامے سر انجام دئے۔اور اپنی آسائش کی سینکڑوں چیزیں ایجاد کیں۔جس طرح ہر تصویر کے دو رُخ ہوتے ہیں اسی طرح سائنسی ترقی کے بھی تاریک پہلو ہیں۔ان میں سب سے خطرناک پہلو "  منشیات کی لعنت "ہے۔یہ لعنت انتہائی تیزی سے دنیا میں پھیل رہی ہے۔اور سینکڑوں ہنستے بستے گھرانوں کو ذلت و خواری کی دلدل میں دھکیل رہی ہے۔

اسلام نے ہر قسم کے نشے کو حرام قرار دیا ہے۔اور نشہ کرنے والوں کے لئے سخت وعید سنائی ہے۔نشہ انسان کی سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت کو مفلوج کردیتا ہے۔اور انسان اچھے بُرے اور حرام حلال میں تمیز نہیں کرپاتا۔نبی کریمﷺ کا ارشاد مبارک ہے کہ "تین آدمی ایسے ہیں جن کی طرف اللہ تعالیٰ قیامت کے دن نظر اٹھا کر بھی نہ دیکھے گا۔ان میں سے ایک والدین کا نافرمان بیٹا،دوسرا شراب پینے والا اور تیسرا احسان جتانے والا "ہے۔

نشہ انسان میں سستی، افسردگی، تھکان اور ذہنی کمزوری پیدا کرتا ہے۔اس سے انسان میں جدو جہد کی قوت باقی نہیں رہتی۔آج کے انسان میں ماڈرن بننے کا شوق،دولت کی فراوانی کا شوق، بری صحبت میں بیٹھنے کی خواہش، معاشی بے چینی اور راتوں رات امیر بننے کی خواہش نے نشہ آور اشیاء کیے استعمال کی مکمل چھوٹ  ہے۔موجودہ دور کا بد ترین نشہ "ہیروئن" ہے۔یہ ایک مہنگی زہر ہے جو افیون سے تیار کی جاتی ہے۔اس نشہ کے عادی افراد میں جس تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے ، اس کی وجہ اس کے خود غرض سوداگر ہیں۔جو اپنے کارندوں کے ذریعے معصوم  اور بے گناہ انسانوں کو اس لعنت کا عادی بنا رہے ہیں۔اس کے علاوہ شراب اور چرس کے بیچنے والے لعین لوگ بھی بہت ہیں۔جو ہمارے اس معاشرے کو اس لعنت میں دھکیل رہے ہیں۔

بحیثیت مسلمان ہر شخص کو اس لعنت سے بچنا چاہئے۔اس کے خلاف جہاد کرنا چاہئے۔ تاکہ اس لعنت سے عوام بچیں۔طلبا بھی اس سلسلے میں اہم کردار نجام دے سکتے ہیں۔ ان کو چاہئے کہ نشے کی لعنت کے موضوع پر سیمینار، ورک شاپ اور واک کا اہتمام  کریں۔ اور لوگوں کو  عمل اور جد وجہد پر آمادہ کریں۔تاکہ ہماری آئندہ کی  نسلیں اس لعنت سے محفوظ رہیں۔

 

Download

More Essays

Thanks for the Visit

Other Useful Links:

BISE Previous Papers

Conversations

Essays

Applications

Letters

Stories

Introduction to English Grammar

Introduction to English Grammar

thedistancelearningschool.blogspot.com

 

Essay in Urdu:واقت کی پابندی

Better Education for Better Life

مضمون:   وقت کی پابندی

وقت ایک بیش بہا خزانہ ہے۔گزرے ہوئے وقت کے لمحات کسی بھی قیمت پر واپس نہیں آ سکتے۔جس طرح دریا کا پانی گزرتا ہوا،اور ہوا کا گزرتا ہوا جھونکا  واپس نہیں آسکتا۔اسی طرح گزرے ہوئے وقت کا واپس آنا بھی نا ممکن ہے۔

جو وقت گزرتا گیا اکارت۔۔۔۔۔۔۔۔افسوس ہوا خزانہ غارت

جن لوگوں کی زندگی با مقصد ہوتی ہے۔ یقیناً وہ وقت کی قدر و قیمت پہچانتے ہیں۔ تاریخ یہ بتاتی ہے کہ اپنے عہد عروج میں پوری امت مسلمہ جن اچھے اوصاف کے لیے مشہورو معروف تھی ان میں ایک اہم صفت وقت کی پابندی بھی تھی۔ ایک مسلمان کے سامنے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوئہ حسنہ موجود ہے۔  صحابہ کرامؓ بھی اسی سنت کی پیروی کرتے تھے۔ تابعی عامر بن عبد قیس سے ایک شخص نے کہا آئو بیٹھ کر باتیں کریں۔ انہوں نے جواب دیا کہ پھر سورج کو بھی ٹھہرالو۔ فتح بن خاقان، عباسی خلیفہ المتوکل کا وزیر اپنے پاس کوئی نہ کوئی کتاب رکھتا تھا۔ سرکاری کاموں سے ذرا بھی فرصت ملتی تو کتاب نکال کر پڑھنا شروع کردیتا۔ نپولین کا کہنا ہےمجھ سے جو چاہولے لو، مگر وقت نہیں۔ غرض دنیا میں آج تک جن باکمالوں نے نام پیدا کیا ہے انہوں نے ہمیشہ وقت کی قدر کی۔ یہی وجہ ہے کہ وقت نے ان کو عزت اور شہرت کا تاج پہنایا۔

تاریخ کا یہ قول فیصل ہے کہ انفرادی اور اجتماعی زوال کا عمل وقت کی ناقدری سے شروع ہوتا ہے۔  امام غزالیؒ فرماتے ہیں، وقت خام مسالے کی مانند ہے جس سے آپ جو کچھ چاہیں بنا سکتے ہیں۔ جس طرح ہم آمدنی کو خرچ کرنے میں منصوبہ بندی سے کام لیتے ہیں اسی طرح بلکہ اس سے کہیں زیادہ سلیقے سے ہمیں وقت کو صرف کرنا چاہیے۔

 دولت کو فضول کون پھینکتا ہے اور وقت تو سب سے قیمتی دولت ہے۔وقت کی منصوبہ بندی کا اشارہ ہمیں ایک حدیث سے بھی ملتا ہے۔ نبی کریمؐ نے فرمایا: وہ عاقل جو عقل سے مغلوب نہ ہو، اس کی چار ساعتیں ہونا چاہییں۔ ایک ساعت جب وہ اپنے رب سے سرگوشی کرے۔ ایک ساعت جب وہ اپنے نفس کا محاسبہ کرے۔ ایک ساعت جب اللہ عزوجل کی صفت میں تفکر کرے اور ایک ساعت جب وہ کھانے پینے کے لیے خالی ہوجائے ۔ نبی اکرمؐ کی حدیث کے مطابق اگر ہم اپنے آنے والے کل کو آج سے بہتر بنانے کی کوشش کرتے ہیں تو وقت کی پابندی و منصوبہ بندی اس کا م کی بنیاد قرار پاتی ہے۔

اگر ہم زمانہ طالب علمی ہی میں وقت کی اہمیت کا احساس کریں گے تو اس کا یقینی نتیجہ یہ ہوگا کہ مستقبل میں ہم کام یاب اور ذمے دار افراد بن سکیں گے بقول افلاطون: وقت ایک ایسی زمین ہے جس میں محنت کیے بغیر کچھ پیدا نہیں ہوتا ۔ امام حسن البنأ نے بالکل درست فرمایا اور جو اس پورے مضمون کا نچوڑ بھی ہے کہ: ’’جس نے وقت کا حق پہچان لیا اس نے زندگی کی حقیقت پالی۔ کیوں کہ وقت ہی زندگی کا دوسرا  نا م ہے۔

جو کام کرتا رہے وقت پر ۔۔۔۔۔۔۔ ملے اس کو آرام شام و سحر

Download

More Essays

Other Useful Links:

BISE Previous Papers

Conversations

Essays

Applications

Letters

Stories

Introduction to English Grammar

Introduction to English Grammar

thedistancelearningschool.blogspot.com

     

 

 

 

 

 

 

Essay in Urdu:استاد کا احترام

Better Education for Better Life

مضمون: استاد کا احترام

اسلام میں استاد کا مقام بہت بلند ہے۔اور اسے روحانی باپ کا درجہ دیا گیا ہے۔استاد اپنے شاگردوں کے اخلاق اور عادات و اطوار کو سنوارتا ہے۔علم و حکمت کی دولت سے مالا مال کرتا ہے۔جینے کا ڈھنگ سکھاتا ہے اور اس پر ترقی و کامرانی کی راہیں کھولتا ہے۔ استاد انسان کو جہالت اور تاریکی کی گمنامیوں سے نکال کر شہرت و ناموری سے آشنا کرتا ہے۔

قرآن پاک میں استاد کی اہمیت کو بتاتے ہوئے کئی مقامات پر معلم کہا گیا ہے۔ایک جگہ ارشاد ہے۔ "نبی تمھیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے  اور تمھیں وہ سب کچھ سکھاتا ہے جو تم نہیں جانتے"۔اللہ تعالیٰ نے نبیؐ کو ساری دنیا کے لئے استاد بناکر بھیجا ہے۔حضورﷺ کا ارشاد ہے کہ "میں معلم بناکر بھیجا گیا ہوں"۔ صحابہ کرام آپﷺ کے شاگرد تھے۔حضور ﷺ پر جو وحی آتی تھی، اس کے بعد صحابہ کرام کو اس کی تعلیم فرمایا کرتے تھے۔

استاد کا ادب و احترام ہر شخص پر دل سے لازم ہے۔طالب علم کا یہ فرض ہے کہ وہ علم کی اہمیت کو پہچانے اور استاد کا دل کی گہرائی سے ادب و احترام کرے۔جب استاد صاحب تشریف لائیں تو ان کے ادب اور احترام میں تعظیماً کھڑے ہو جائیں۔اور جب تک استاد نیچے بیٹھنے کے لئے اجازت نہ دیں، تب تک نہ بیٹھیں۔کوئی بحث مباحثہ کی ضرورت درپیش ہو  تو ہرگز عزت و احتام کا دامن ہاتھ سے نہ جانے دیں۔استاد پڑھا رہاہو تو ہر بات کو پورے انہماک سے سننا اور استاد کی نصیحتوں پر عمل کرنا چاہئے۔

حضورﷺ کا ارشاد ہے "باپ اپنی اولاد کو جو کچھ دیتا ہے  اس میں سب سے بہتر تعلیم و تربیت ہے"۔حضورﷺ کا ایک اور ارشاد ہے ۔" تم جس سے سیکھتے ہو اس کا احترام کرو"۔حضرت علی کا قول ہے  کہ" جس نے مجھے ایک لفظ بھی سکھایا گویا اس نے مجھے غلام بنایا"۔سکندر کا باپ یونان کی ایک چھوٹی سی ریاست  کا حکمران تھا ۔ سکندر اپنے استاد کی تربیت کی وجہ سے  آدھی دنیا کا فاتح بنا۔سکندر کہا کرتا تھا" میرا باپ مجھے آسمان سے زمیں پر لایا لیکن میرے استاد نے مجھے زمیں سے آسمان پر پہنچایا"۔علامہ اقبال اپنے استاد شمس العلماء کا بہت احترام کیا کرتے تھے۔جب ان سے پوچھا گیا کہ مولوی صاحب نے  کون سی کتاب لکھیں ہے۔ تو علامہ نے جواب دیا کہ میں ان کی زندہ کتا ب ہوں۔اس سے ثابت ہوگیا کہ استاد کا احترام از حد ضروری ہے۔اگر کوئی استاد کے اس بلند مقام کی اہمیت کو نہیں جانتا  اور اس کو عزت و احترام نہیں دیتا۔تو یہ اس کی بدبختی ہے۔

طالب علم کا ذہن ناپختہ ہوتا ہے۔وہ اپنے استاد کی راہنمائی میں اپنی صلاحیتوں اور قابلیت کو بڑھاتا ہے۔اسے اپنے استاد کے تجربے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے  اس کی رائے کو اولیت دینی چاہئے۔اور اپنے مسائل کے حل کے لئے اپنے استاد سے رجوع کرنا چاہئے۔جب ایک ہیرا کان سے نکالا جاتاہے تو وہ محض ایک پتھر معلوم ہوتا ہے۔لیکن پتھروں کا استاد اس کو تراش تراش کر انمول اور بیش قیمت بناتا ہے۔اسی طرح این آدمی کو انسان بنانے والا شخص استاد ہے۔ایک معمولی انسان اپنے استاد کی سرپرستی میں  ہی کمال کے انتہائی درجے کو پہنچتا ہے۔

Download

More Essays


Other Useful Links:

BISE Previous Papers

Conversations

Essays

Applications

Letters

Stories

Introduction to English Grammar

Introduction to English Grammar

thedistancelearningschool.blogspot.com